EN हिंदी
ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے | شیح شیری
aisa nahin ki un se mohabbat nahin mujhe

غزل

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے

سردار سوز

;

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں مجھے
افشائے راز عشق کی جرأت نہیں مجھے

جلوے ہیں ان کے نو بہ نو میری نگاہ میں
اب ان کو غم یہ ہے غم فرقت نہیں مجھے

رکھنا ہے ان کے پاؤں پہ جا کر سر نیاز
رک جا اجل کیا اتنی بھی مہلت نہیں مجھے

شوریدگیٔ عشق کہاں لے کے آ گئی
پھولوں سے بھی جہاں کوئی رغبت نہیں مجھے

ہوتی ہے ان سے پہروں تصور میں گفتگو
سوچوں کچھ اور اتنی بھی فرصت نہیں مجھے

رسوا جہاں میں کر دیا اس جذب شوق نے
مقصود ورنہ عشق میں شہرت نہیں مجھے

اس درجہ جھوٹ سنتا رہا ہوں تمام عمر
سننے کی سچ بھی اب کوئی عادت نہیں مجھے

اب ان سے حال دل میں بیاں سوزؔ کیا کروں
اپنی زبان پر بھی تو قدرت نہیں مجھے