EN हिंदी
ایسا نہیں ہم سے کبھی لغزش نہیں ہوتی | شیح شیری
aisa nahin humse kabhi laghzish nahin hoti

غزل

ایسا نہیں ہم سے کبھی لغزش نہیں ہوتی

سیفی سرونجی

;

ایسا نہیں ہم سے کبھی لغزش نہیں ہوتی
پر جھوٹی کبھی ہم سے نمائش نہیں ہوتی

کلیاں بھی نئی سوکھ کے مرجھا گئیں اب تو
مدت سے مرے شہر میں بارش نہیں ہوتی

دھرتی کبھی کانپی کبھی آکاش بھی لرزا
اک شخص کو لیکن ذرا جنبش نہیں ہوتی

کھودو گے زمیں روز تو نکلے گا دفینہ
کوشش جسے کہتے ہیں وہ کوشش نہیں ہوتی

مانا ترے در سے کوئی خالی نہیں جاتا
سیفیؔ یہ مگر کوئی نوازش نہیں ہوتی