ایسا لگتا ہے مخالف ہے خدائی میری
کوئی کرتا ہی نہیں کھل کے برائی میری
مجھ میں مدفون بڑے شہر معانی تھے مگر
دور تک کر نہ سکا وقت خدائی میری
بے صدا شہر تھا خاموش تھے گلیوں کے مکیں
ایک مدت مجھے آواز نہ آئی میری
خیر خواہی کا رہا یوں تو سبھی کو دعویٰ
چاہتا بھی تو کوئی دل سے بھلائی میری
شب کی دہلیز پہ قزاق ضرورت تو نہیں
چھین لیتا ہے جو دن بھر کی کمائی میری
کچھ مرے علم نے بھی مجھ کو فضیلت بخشی
فن سے نسبت نے بھی توقیر بڑھائی میری
مجھ کو مجھ تک ہی نہ محدود سمجھنا سیفیؔ
لا مکاں سے بھی پرے تک ہے رسائی میری
غزل
ایسا لگتا ہے مخالف ہے خدائی میری
بشیر سیفی