ایسا کر سکتے تھے کیا کوئی گماں تم اور میں
ایسے تنہا نظر آئیں گے یہاں تم اور میں
بزم آراستہ ہوگی تو نمایاں ہوں گے
کسی تنہائی میں شاید ہیں نہاں تم اور میں
رہ گزر ختم ہوئی جاتی ہے آگے جا کر
چھوڑ آئے ہیں کہاں اپنا نشاں تم اور میں
جھلملاتی ہے کہیں پر کسی امکان کی لو
اسی امکان کی جانب نگراں تم اور میں
بے حسی شرط ہی ٹھہری تھی رفاقت میں اگر
کس لیے کرتے رہے جاں کا زیاں تم اور میں
ایک انکار کی خواہش کو چھپائے دل میں
گرد اقرار میں بیٹھے ہیں میاں تم اور میں
اب تھکن جسم میں اتری ہے تو آتا ہے خیال
کن ہواؤں میں رہے رقص کناں تم اور میں
میں نے پوچھا کہ کوئی دل زدگاں کی ہے مثال
کس توقف سے کہا اس نے کہ ہاں تم اور میں
کس کی آواز تعاقب میں چلی آئی رضیؔ
اس سے پہلے بھی تو آئے تھے یہاں تم اور میں
غزل
ایسا کر سکتے تھے کیا کوئی گماں تم اور میں
خواجہ رضی حیدر