EN हिंदी
ایسا جینا بھی کیا ہے مر مر کے | شیح شیری
aisa jina bhi kya hai mar mar ke

غزل

ایسا جینا بھی کیا ہے مر مر کے

پوجا بھاٹیا

;

ایسا جینا بھی کیا ہے مر مر کے
وہ جہاں بھی رہے رہے ڈر کے

اب کسی طرح دل نہیں لگتا
گھر میں سب کچھ تو ہے سوا گھر کے

سانس کا بوجھ اب نہیں اٹھتا
جسم خالی ہے دھڑ بنا سر کے

اس کو جانے کی کتنی جلدی تھی
بات ساری کہی پہ کم کر کے

جلوہ دیکھا لہو کا اس نے جب
ہوش ہی اڑ گئے تھے خنجر کے

ریت و ساحل میں صلح پھر نہ ہوئی
تھک گئی موج التجا کر کے

زخم کچھ اس طرح سے ہنستے ہیں
اشک بہنے لگے ہیں نشتر کے

راس آیا غم شناسائی
وار پہچان کے تھے خنجر کے

اس کو ناراض ہونا آتا ہے؟
واری جاؤں میں ایسے تیور کے