ایسا ہو زندگی میں کوئی خواب ہی نہ ہو
اندھیاری رات میں کوئی مہتاب ہی نہ ہو
سوکھے درخت کی طرح دریا میں گر پڑیں
مرنے کے واسطے کوئی سیلاب ہی نہ ہو
پوجا کریں مگر نہ دعا کو اٹھائیں ہاتھ
شہر ہوس میں معبد ارباب ہی نہ ہو
مر جائیں اس سے پہلے کہ وہ فیصلہ کریں
ہاتھوں میں کوئی پیالۂ زہراب ہی نہ ہو
مامونؔ جل کے خاک میں مل جائے چشم تر
آنسو بہانے چشمۂ سرداب ہی نہ ہو
غزل
ایسا ہو زندگی میں کوئی خواب ہی نہ ہو
خلیل مامون