EN हिंदी
ایسا ہے کون جو مجھے حق تک رسائی دے | شیح شیری
aisa hai kaun jo mujhe haq tak rasai de

غزل

ایسا ہے کون جو مجھے حق تک رسائی دے

زیب النسا زیبی

;

ایسا ہے کون جو مجھے حق تک رسائی دے
دیکھوں جسے بھی خوف زدہ سا دکھائی دے

اپنے ہیں شہر بھر میں پرایا کوئی نہیں
پھر بھی ہمارا دل ہے جو تنہا دکھائی دے

تخصیص کوئی ظالم و مظلوم کی نہیں
کوئی دہائی دے بھی تو کس کی دہائی دے

ہمدرد ہوں غیور ہوں اور پرخلوص ہوں
اے کارساز بہنوں کو اب ایسے بھائی دے

یہ زندگی ہے اپنی کبھی خوش کبھی اداس
اس کشمکش سے مجھ کو خدایا رہائی دے

زیبیؔ عجیب دور ہے یہ وحشتوں کا دور
سایہ بھی اپنا موت کا سایہ دکھائی دے