ایسا بھی نہیں اس سے ملا دے کوئی آ کر
کیسا ہے وہ اتنا تو بتا دے کوئی آ کر
یہ بھی تو کسی ماں کا دلارا کوئی ہوگا
اس قبر پہ بھی پھول چڑھا دے کوئی آ کر
سوکھی ہیں بڑی دیر سے پلکوں کی زبانیں
بس آج تو جی بھر کے رلا دے کوئی آ کر
برسوں کی دعا پھر نہ کہیں خاک میں مل جائے
یہ ابر بھی آندھی نہ اڑا دے کوئی آ کر
یہ کوہ یہ سبزہ یہ مچلتی ہوئی ندیاں
مر جاؤں جو منزل کا پتا دے کوئی آ کر
ہر گھر پہ ہے آواز ہر اک در پہ ہے دستک
بیٹھا ہوں کہ مجھ کو بھی صدا دے کوئی آ کر
اس خواہش ناکام کا خوں بھی مرے سر ہے
زندہ ہوں کہ اس کی بھی سزا دے کوئی آ کر
غزل
ایسا بھی نہیں اس سے ملا دے کوئی آ کر
عدیم ہاشمی