ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے
کس حسن کا ہے حسن ادا کس ادا کی ہے
چشم سیاہ یار سے سازش حیا کی ہے
لیلیٰ کے ساتھ میں یہ سہیلی بلا کی ہے
تصویر کیوں دکھائیں تمہیں نام کیوں بتائیں
لائے ہیں ہم کہیں سے کسی بے وفا کی ہے
انداز مجھ سے اور ہیں دشمن سے اور ڈھنگ
پہچان مجھ کو اپنی پرائی قضا کی ہے
مغرور کیوں ہیں آپ جوانی پر اس قدر
یہ میرے نام کی ہے یہ میری دعا کی ہے
دشمن کے گھر سے چل کے دکھا دو جدا جدا
یہ بانکپن کی چال یہ ناز و ادا کی ہے
رہ رہ کے لے رہی ہے مرے دل میں چٹکیاں
پھسلی ہوئی گرہ ترے بند قبا کی ہے
گردن مڑی نگاہ لڑی بات کچھ نہ کی
شوخی تو خیر آپ کی تمکیں بلا کی ہے
ہوتی ہے روز بادہ کشوں کی دعا قبول
اے محتسب یہ شان کریمی خدا کی ہے
جتنے گلے تھے ان کے وہ سب دل سے دھل گئے
جھیپی ہوئی نگاہ تلافی جفا کی ہے
چھپتا ہے خون بھی کہیں مٹھی تو کھولیے
رنگت یہی حنا کی یہی بو حنا کی ہے
کہہ دو کہ بے وضو نہ چھوئے اس کو محتسب
بوتل میں بند روح کسی پارسا کی ہے
میں امتحان دے کے انہیں کیوں نہ مر گیا
اب غیر سے بھی ان کو تمنا وفا کی ہے
دیکھو تو جا کے حضرت بیخودؔ نہ ہوں کہیں
دعوت شراب خانے میں اک پارسا کی ہے
غزل
ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے
بیخود دہلوی