عین ممکن ہے کسی روز قیامت کر دیں
کیا خبر ہم تجھے دیکھیں تو بغاوت کر دیں
مونس غم ہے ہمارا سو کہاں ممکن ہے
تجھ کو دیکھیں تو ترے ہجر کو رخصت کر دیں
پیش گوئی کسی انجام کی جب ملتی نہیں
زندگی کیسے تجھے وقف محبت کر دیں
اس کو احساس ندامت ہے تو پھر لوٹ آئے
شاید اس بار بھی ہم اس سے رعایت کر دیں
صوفیٔ عشق کی مسند مرے ہاتھ آ جائے
میرے احباب اگر مجھ کو ملامت کر دیں
موسم ہجر بھی ہنس دیتا ہے جس وقت تری
یاد کے پھول خیالوں سے شرارت کر دیں
آخری بار اسے اس لیے دیکھا شاید
اس کی آنکھیں مری الجھن کی وضاحت کر دیں
غزل
عین ممکن ہے کسی روز قیامت کر دیں
شگفتہ الطاف