عیب جو مجھ میں ہیں میرے ہیں ہنر تیرا ہے
میں مسافر ہوں مگر زاد سفر تیرا ہے
تیشہ دے دے مرے ہاتھوں میں تو ثابت کر دوں
سینۂ سنگ میں خوابیدہ شرر تیرا ہے
تو یہ کہتا ہے سمندر ہے قلمرو میں مری
میں یہ کہتا ہوں کہ موجوں میں اثر تیرا ہے
تو نے روشن کئے ہر طاق پہ فرقت کے چراغ
جس میں تنہائیاں رہتی ہیں وہ گھر تیرا ہے
سنگ ریزے تو برستے ہیں مرے آنگن میں
جس کا ہر پھل ہے رسیلا وہ شجر تیرا ہے
میں تو ہوں سنگ ہدایت کی طرح استادہ
ہاں مگر ضابطۂ راہ گزر تیرا ہے
لاکھ بے مایہ ہوں اتنا بھی تہی دست نہیں
میری آنکھوں کے صدف میں یہ گہر تیرا ہے
مجھ کو تنہائی سے رغبت تجھے ہنگاموں سے پیار
ظلمت شب ہے مری نور سحر تیرا ہے
ڈوبتے ہیں جو سفینے یہ خطا کس کی ہے
تہہ نشیں موج مری ہے تو بھنور تیرا ہے
رمزؔ ہر تہمت نا کردہ سے منسوب سہی
یہ مگر سوچ لے اس میں بھی ضرر تیرا ہے

غزل
عیب جو مجھ میں ہیں میرے ہیں ہنر تیرا ہے
رمز عظیم آبادی