عیب بھی تیرے ہنر لگتے ہیں
تیری فرقت کا ثمر لگتے ہیں
کل جو قدموں میں بچھے جاتے تھے
اب وہ سائے بھی شجر لگتے ہیں
وہ اڑے پھرتے ہیں حیرت کیا ہے
چیونٹیوں کے بھی تو پر لگتے ہیں
پی گئیں کتنے سمندر صدیاں
اب بھی دریا ہی امر لگتے ہیں
ایک سورج ہی تو گہنایا ہے
لوگ کیوں خاک بسر لگتے ہیں
جل رہا ہے کوئی گلشن شاید
اشک آنکھوں میں شرر لگتے ہیں
جام جم تھے جو مرے دوست کبھی
حادثہ ہے کہ خبر لگتے ہیں
ہم جہاں رہتے ہیں وہ دشت وہ گھر
دشت لگتے ہیں نہ گھر لگتے ہیں
باعث رنج تھے الزام کبھی
اب تو یہ رخت سفر لگتے ہیں
راستے بند ہیں سارے جوہرؔ
پھر بھی وہ راہ گزر لگتے ہیں
غزل
عیب بھی تیرے ہنر لگتے ہیں
جوہر میر