EN हिंदी
اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے | شیح شیری
ai yaqinon ke KHuda shahr-e-guman kis ka hai

غزل

اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے

معراج فیض آبادی

;

اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے

کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں
موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے

راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں
یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے

میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے
آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس کا ہے

وہی تپتا ہوا صحرا وہی سوکھے ہوئے ہونٹ
فیصلہ کون کرے آب رواں کس کا ہے

چند رشتوں کے کھلونے ہیں جو ہم کھیلتے ہیں
ورنہ سب جانتے ہیں کون یہاں کس کا ہے