اے یاس جو تو دل میں آئی سب کچھ ہوا پر کچھ بھی نہ ہوا
یاں ہو گئی خانہ ویرانی اور تیرا ضرر کچھ بھی نہ ہوا
تھا قصد کہ ان کو روکیں گے شب گزری انہیں اندیشوں میں
پر ہائے رے ناکامی دل کی ہنگام سحر کچھ بھی نہ ہوا
احسان ترا مجھ پر ہوتا گر روح کو کرتا تن سے جدا
جب جان بچی فرقت کی شب اے درد جگر کچھ بھی نہ ہوا
اے کاش وہ باتیں کی ہوتیں جو وحشت دل کو کم کرتیں
اتنا جو بکا تو اے ناصح مجھ کو تو اثر کچھ بھی نہ ہوا
اب چاہئے ایسی فکر تجھے جس سے کہ نظارے کی ٹھہرے
ہر وقت کے رونے سے حاصل اے دیدۂ تر کچھ بھی نہ ہوا
دل اور جگر جاں اور یہ سر ہم شوق سے لائے پاس ترے
قسمت کا گلہ اب کس سے کریں منظور نظر کچھ بھی نہ ہوا
یا اس سے جواب خط لانا یا قاصد اتنا کہہ دینا
بچنے کا نہیں بیمار ترا ارشاد اگر کچھ بھی نہ ہوا
دھن وصل کی تجھ پر غالب ہے تو عیش و طرب کا طالب ہے
کیا لطف حقیرؔ اس الفت کا بیتاب اگر کچھ بھی نہ ہوا
غزل
اے یاس جو تو دل میں آئی سب کچھ ہوا پر کچھ بھی نہ ہوا
حقیر