اے سخنور طرح گماں ہوں میں
یا فقط حرف رایگاں ہوں میں
عکس جل بجھ گئے بجھا چہرہ
آئنے سے اٹھا دھواں ہوں میں
ہے میسر متاع تشنہ لبی
خشک دریا کا پاسباں ہوں میں
آگ سے بیر دھوپ بھی ہے عدو
اور اک موم کا مکاں ہوں میں
مشترک ہم میں ہجرتوں کی تھکن
تتلیوں کا مزاج داں ہوں میں
تجربے کی گھنیری چھاؤں لیے
ایک کہنہ سا سائباں ہوں میں
کب مٹا دے مجھے ہوا کی لکیر
راہرو ریت پر نشاں ہوں میں
کل مرا وصف تھا طریق سلوک
آج بے نام بے نشاں ہوں میں
شہر میں حرف آشنا ہی نہیں
فیض کیا لفظ بے کراں ہوں میں
جو حقیقت تھے وہ گئے صابرؔ
ایک موہوم داستاں ہوں میں

غزل
اے سخنور طرح گماں ہوں میں
صابر شاہ صابر