اے صبح امید دیر کیا ہے
اب کتنے دیوں کا فاصلہ ہے
اب کتنی ہے دیر روشنی میں
اب کتنی شبوں کا مرحلہ ہے
ہم ہجر کی رات کے مسافر
اس دشت سے ہم کو کیا ملا ہے
وہ خواب تو جل بجھے ہیں سارے
وہ خیمہ تو راکھ ہو چلا ہے
اب کیسے چراغ کیا چراغاں
جب سارا وجود جل رہا ہے
باہر بھی وہی فضا ہے ساری
اندر بھی مرے وہی خلا ہے
اک دل ہے اور اتنی قتل گاہیں
جو راہ چلو وہ کربلا ہے
وہ دور ہے یہ کہ سننے والا
ہر لفظ کو چھو کے دیکھتا ہے
اتنے جو عذاب اتر رہے ہیں
اس شہر کو کس کی بد دعا ہے
غزل
اے صبح امید دیر کیا ہے
رضی اختر شوق