EN हिंदी
اے سکھین میں نے دیکھیا سنگ کر کے یار کا | شیح شیری
ai sakhiyan maine dekhya sang kar ke yar ka

غزل

اے سکھین میں نے دیکھیا سنگ کر کے یار کا

قاضی محمود بحری

;

اے سکھین میں نے دیکھیا سنگ کر کے یار کا
پن نہ دیکھیا بے سمجھ ہور سنگ دل تجھ سار کا

جیو لینے جانتا ہور دلبری کے تو کلا
گھر میں ہے لگ آپنا ہور بھارگے پرپار کا

جیو جل کہتا ہوں میں پن سن توں سنگیں ہوں نکو
بول اپس کی برہ کی پر بس میں بلکھنہار کا

گھاؤ کاری اچھ نہ جانا جیو ہور جم تلکھلی
یوں تو خاصیت دسیا تجھ عشق کی تروار کا

تل ترے رکھتے ہیں جاگا تین لک پیادے کی آج
چک ترے کرتے ہیں دعویٰ چار لک اسوار کا

عشق میں کچھ عدل اچھتا تو نہ اچھتا بے دھڑک
دکھ دلاور لشکری سر کاٹ سکھ سردار کا

بحریاؔ سر پاؤں کیوں کرتا حقیقت کا سو بول
گرنا کھڑتا سر پہ تیرے یو مجازی مار کا