اے رشک مہر کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں
زہرہ نہیں پری نہیں ماہ مبیں نہیں
تنہا نہیں ہوں قبر میں ارماں وصل کیا
ہمدم نہیں رفیق نہیں ہم نشیں نہیں
آ کر چمن میں آہ خزاں نے یہ کیا کیا
بیلا نہیں گلاب نہیں یا سمیں نہیں
ایسا کوئی نہیں جو ترے درد ہجر سے
غمگیں نہیں حزیں نہیں اندوہگیں نہیں
عریانی بدن ہے عجب مختصر لباس
دامن نہیں ہے جیب نہیں آستیں نہیں
شرمندہ کیا دہان و رخ و زلف یار سے
غنچہ نہیں گلاب نہیں مشک چیں نہیں
بڑھ کر مٹھاس میں لب شیریں یار سے
مصری نہیں ہے قند نہیں انگبیں نہیں
جوش جنوں میں اب ترے بیمار عشق میں
دانش نہیں خرد نہیں رائے متیں نہیں
انسان ہے جہاں میں وہی آدمی کہ جو
ظالم نہیں حریص نہیں عیب بیں نہیں
زردار اور ملک ہیں افسوس ہند میں
چاندی نہیں طلا نہیں در ثمیں نہیں
کیوں کر کلام ہو مرا بے مثل برقؔ میں
عرفیؔ نہیں کمالؔ نہیں بن مبیںؔ نہیں
غزل
اے رشک مہر کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں
شیام سندر لال برق