اے رہ ہجر نو فروز دیکھ کہ ہم ٹھہر گئے
یہ بھی نہیں کہ زندہ ہیں یہ بھی نہیں کہ مر گئے
خواب تلک رہائی تھی تیرے فراق و ہجر سے
آنکھ کھلی تو آئنے تہہ میں کہیں اتر گئے
تو بھی مری طرح رہا دھیان اٹھائے شہر کا
سوئے تو چھاؤں سو گئی قافلے کوچ کر گئے
تجھ کو بہت قریب سے دیکھ کے یوں لگا کہ اب
خیمۂ جاں اکھڑ گیا دشت طلب گزر گئے
دل کی گواہی کے لیے رسم دعا بری نہ تھی
رنج خمار بے ثمر ڈھونڈنے اس کے گھر گئے
ہم ہی تھے وہ بلا کشاں دار و رسن تھے جن کی جاں
ہم ہی تھے شب کے ہم سفر ہم ہی نہ اپنے گھر گئے
دل کو ترے فراق کی آرزو یاد رہ گئی
دن وہ محبتوں کے بھی مثل رہ سفر گئے
میرے لیے بھی خواب تھے اس نے رکھے ہوئے کہیں
شہر میں ان کو ڈھونڈنے قاصد بے ہنر گئے
غزل
اے رہ ہجر نو فروز دیکھ کہ ہم ٹھہر گئے
کشور ناہید