اے قلندر آ تصوف میں سنور کر رقص کر
عشق کے سب خارزاروں سے گزر کر رقص کر
عقل کی وسعت بہت ہے عشق میں فرصت ہے کم
عقل کی عیاریوں کو درگزر کر رقص کر
در بدر کیوں ڈھونڈھتا پھرتا ہے نادیدہ صنم
اپنے دل کے آئنے پر اک نظر کر رقص کر
یہ جہاں اک مے کدہ کم ظرف ہے ساقی ترا
اس خرابے سے پرے شام و سحر کر رقص کر
رستم و دارا سکندر مل گئے سب خاک میں
بن کے سرمد زندگی اپنی بسر کر رقص کر
اس زمیں پر جسم خاکی ذہن و دل ہو عرش پر
یوں کبھی ذاکرؔ ریاضت میں بکھر کر رقص کر
غزل
اے قلندر آ تصوف میں سنور کر رقص کر
ذاکر خان ذاکر