EN हिंदी
اے نیش عشق تیرے خریدار کیا ہوئے | شیح شیری
ai nish-e-ishq tere KHaridar kya hue

غزل

اے نیش عشق تیرے خریدار کیا ہوئے

علی وجدان

;

اے نیش عشق تیرے خریدار کیا ہوئے
تھی جن کے دم سے رونق بازار کیا ہوئے

بول اے ہوائے شام وہ بیمار کیا ہوئے
مونس ترے رفیق ترے یار کیا ہوئے

اے جرم عشق تیرے گنہ گار کیا ہوئے
اے دوست تیرے ہجر کے بیمار کیا ہوئے

رسم وفا کا ذکر تو اب ذکر رہ گیا
وہ پیکر وفا وہ وفادار کیا ہوئے

اے کم شناس وقت تجھے یاد تک نہیں
وہ زخم جان و دل کے طلب گار کیا ہوئے

کار جنوں میں جن کے ہوئے عام تذکرے
فصل جنوں بتا وہ خود آزار کیا ہوئے

جوش و ندیم و فیض بھی بیٹھے ہیں ہار کے
پہنچے تھے جو جنوں میں سر دار کیا ہوئے

زندان تیرگی میں مقید ہیں آج بھی
پیدا ہوئے تھے صبح کے آثار کیا ہوئے

وجدانؔ عاشقی میں گنوانی تھی جان بھی
پیارے وہ تیرے طور وہ اطوار کیا ہوئے