اے نگار غم و آلام تری عمر دراز
تو نے بخشے بہت آرام تری عمر دراز
شہر میں دشت میں صحرا میں جہاں بھی دیکھا
اب ہے مشہور مرا نام تری عمر دراز
سرخ رو اب بھی تو ہر کوچہ و بازار میں ہے
اپنے سر ہیں سبھی الزام تری عمر دراز
فصل گل آئی تھی لے لے کے ترا نام گئی
تو کہاں پھرتا تھا نا کام تری عمر دراز
صبح نے پھر مرے زخموں سے اجالا مانگا
ایک زخم اور مرے نام تری عمر دراز
دل کے تاریک خرابے میں تری یاد کا نور
آج آیا ہے بڑے کام تری عمر دراز
چھوڑ کر پھولوں کی رت پھول سے چہروں کو شعیبؔ
تجھ کو ویرانے سے کیا کام تری عمر دراز
غزل
اے نگار غم و آلام تری عمر دراز
شاہد احمد شعیب