اے مری جان ہمیشہ ہو تری جان کی خیر
نازکی دور بلا، حسن کے سامان کی خیر
رات دن شام سحر پہر گھڑی پل ساعت
مانگتے جاتی ہے ہم کو تری آن آن کی خیر
مہندی چوٹی ہو سوائی ہو چمک پیٹی کی
عمر چوٹی کی بڑی زلف پریشان کی خیر
بے طرح بوجھ سے جھمکوں کے جھکے پڑتے ہیں
کیجو اللہ تو ان جھمکوں کی اور کان کی خیر
پان کھایا ہے تو اس وقت بھی لازم ہے یہی
ایک بوسہ ہمیں دیجے لب و دندان کی خیر
آنکھ اٹھا دیکھیے اور دیکھ کے ہنس بھی دیجے
اپنے کاجل کی زکوٰۃ اور مسی و پان کی خیر
پہلے جس آن تمہاری نے لیا دل ہم سے
اب تلک مانگتے ہیں دل سے ہم اس آن کی خیر
کیا غضب نکلے ہے بن ٹھن کے وہ کافر یارو
آج ہوتی نظر آتی نہیں ایمان کی خیر
جتنے محبوب پری زاد ہیں دنیا میں نظیرؔ
سب کے اللہ کرے حسن کی اور جان کی خیر
غزل
اے مری جان ہمیشہ ہو تری جان کی خیر
نظیر اکبرآبادی