اے مرے غبار سر تو ہی تو نہیں تنہا رائیگاں تو میں بھی ہوں
میرے ہر خسارے پر میرے یہ مخالف کیا شادماں تو میں بھی ہوں
دشت یہ اگر اپنی وسعتوں پہ نازاں ہے مجھ کو اس سے کیا لینا
ذرہ ہی سہی لیکن میری اپنی وسعت ہے بے کراں تو میں بھی ہوں
در بہ در بھٹکتی ہے دشت و شہر و صحرا میں اپنا سر پٹکتی ہے
اے ہوائے آوارہ تیری ہی طرح بے گھر بے اماں تو میں بھی ہوں
کوچ کر گئے جانے کتنے قافلے جن کا کچھ نشاں نہیں ملتا
میں بھی ہوں کمر بستہ یعنی رہرو راہ رفتگاں تو میں بھی ہوں
تو جو ایک شعلہ ہے چوب خشک ہوں میں بھی اپنا حال یکساں ہے
دیر ہے بھڑکنے کی پھر تو راکھ ہے تو بھی پھر دھواں تو میں بھی ہوں
غزل
اے مرے غبار سر تو ہی تو نہیں تنہا رائیگاں تو میں بھی ہوں
اسلم محمود