EN हिंदी
اے میری آنکھو یہ بے سود جستجو کیسی | شیح شیری
ai meri aankho ye be-sud justuju kaisi

غزل

اے میری آنکھو یہ بے سود جستجو کیسی

عبد الوہاب سخن

;

اے میری آنکھو یہ بے سود جستجو کیسی
جو خواب خواب رہیں ان کی آرزو کیسی

رگوں میں خون ہے شاخوں کی سرخ رو غنچے
خزاں میں اب کے بہاروں کی رنگ و بو کیسی

تمام پتوں کو موسم نے زرد زرد کیا
یہ ایک شاخ تمنا ہے سبز رو کیسی

کرو تو یاد ملن کے وہ اولیں لمحے
کہ چھڑ گئی تھی نگاہوں میں گفتگو کیسی

یہ شہر دل میں بھلا آج کس کی آمد ہے
یہ محو رقص ہیں خوشبوئیں کو بہ کو کیسی

افق کا چہرہ سخنؔ اس کدر اداس ہے کیوں
شفق کے رنگ میں یہ سرخئ لہو کیسی