اے مرکز خیال بکھرنے لگا ہوں میں
اپنے تصورات سے ڈرنے لگا ہوں میں
اس دوپہر کی دھوپ میں سایہ بھی کھو گیا
تنہائیوں کے دل میں اترنے لگا ہوں میں
برداشت کر نہ پاؤں گا وحشت کی رات کو
اسے شام انتظار بپھرنے لگا ہوں میں
اس تیرگی میں کرمک شب تاب بھی نہیں
تاریکیوں کو روح میں بھرنے لگا ہوں میں
اب دل میں تیری یاد کی اک شمع تک نہیں
تاریک راستوں سے گزرنے لگا ہوں میں
غزل
اے مرکز خیال بکھرنے لگا ہوں میں
فاروق نازکی