اے خواب دل نواز نہ آ کر ستا مجھے
ہے نیند آئی ٹوٹ کر بعد از قضا مجھے
میں تو جبین شوق پر لکھتا گیا اسے
وہ بھی نگاہ ناز سے پڑھتا رہا مجھے
اس کی خرام ناز پہ مرتے رہے سبھی
لیکن نقوش لعل میں دیکھا گیا مجھے
وہ ضم ہوئے کچھ ایسے مری کائنات میں
وہ ہی ملیں گے تم سے جو دو گے صدا مجھے
اک پھول اور کھل گیا عہد بہار میں
اک سنگ جب بھی تان کے مارا گیا مجھے
سرورؔ کی ایک بات نے بیدار کر دیا
چہرے پہ سرد آب کا چھینٹا دیا مجھے

غزل
اے خواب دل نواز نہ آ کر ستا مجھے
سرور نیپالی