EN हिंदी
اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم | شیح شیری
ai Khaar Khaar-e-hasrat kya kya figar hain hum

غزل

اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم

غلام مولیٰ قلق

;

اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
کیا حال ہوگا اس کا جس دل میں خار ہیں ہم

ہر چند دل میں تیرے ظالم غبار ہیں ہم
کتنے دبے ہوئے ہیں کیا خاکسار ہیں ہم

کیا جانے کیا دکھائے کم بخت راز دشمن
بے اختیار ہو تم اور بے قرار ہیں ہم

واں شوخیوں نے مارے ناکام کیسے کیسے
یاں سادگی سے کیا کیا امیدوار ہیں ہم

نے رخت میکدے میں نے کعبے کا ارادہ
ہیں دل لگی کے بندے یاروں کے یار ہیں ہم

واں سرگزشت دشمن وہ کہہ رہے ہیں منہ پر
یاں بے خودی ہے اس پر کیا راز دار ہیں ہم

ساقی تری نگاہیں کب تک رہیں گی پلٹی
ہے نشہ زاہدوں کو اور بادہ خوار ہیں ہم

کعبہ ہے سنگ بالیں زہاد خفتہ دل کا
اور مے کدے کے اندر شب زندہ دار ہیں ہم

اللہ رے ظرف دل کا سب کی جگہ ہے اس میں
بے غم رہے ہے دشمن کیا غم گسار ہیں ہم

اے حشر بچ کے چلنا اے چرخ ہٹ کے گرنا
ہے برق سایہ جس کا وہ خار زار ہیں ہم

اتنی خلش مژہ کی اب بڑھ گئی کہ گویا
زخم دل عدو میں خنجر گزار ہیں ہم

کب تک رہے گا دشمن جامے سے اپنے باہر
ہو آگ آگ جس سے تم وہ شرار ہیں ہم

دشمن کی جیب میں تم صبر و شکیب میں ہم
تم دست کوتہی ہو پائے نگار ہیں ہم

وادی جستجو سے گزریں تو کیا عجب ہے
وارفتہ کیسے کیسے لیل و نہار ہیں ہم

کیا بادۂ جوانی مرد آزماں نشہ تھا
اب اے قلقؔ وبال خواب و خمار ہیں ہم