اے کاتب تقدیر یہ تقدیر میں لکھ دے
بس اس کی محبت مری جاگیر میں لکھ دے
دے ایسا جنوں جیسا دیا قیس کو تو نے
مجھ کو بھی اسی حلقۂ زنجیر میں لکھ دے
پانے کا اسے خواب جو دیکھا ہے ہمیشہ
وہ خواب ہی بس خواب کی تعبیر میں لکھ دے
دل ایسا مکاں ہے جو اگر ٹوٹ گیا تو
لگ جائیں گی صدیاں نئی تعمیر میں لکھ دے
ملنا ہے اگر خود سے تو پھر دیر نہ کرنا
کھو جانے کا ڈر ہوتا ہے تاخیر میں لکھ دے
سچائی مرا جرم ہے اور کار وفا بھی
منصف ہے تو یہ بھی مری تعزیر میں لکھ دے
لکھ دے کہ میں غالبؔ کا مقلد ہوں غزل میں
پھر نام مرا معتقد میرؔ میں لکھ دے
غزل
اے کاتب تقدیر یہ تقدیر میں لکھ دے
فرحت ندیم ہمایوں