اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے
فصل گل آئی کہ دیوانے سدھارے شہر سے
خوب روئے حال پر اپنے وطن کا سن کے حال
کوئی غربت میں جو آ نکلا ہمارے شہر سے
جان دوں گا میں اسیر اے دوستو چپکے رہو
ذکر کیا اس کا کہ دیوانہ سدھارے شہر سے
موسم گل میں رہا زنداں میں اور آئی نہ موت
سامنے ہوتی نہیں ہے آنکھ سارے شہر سے
جوش وحشت میں جو لی زنداں سے میں نے راہ دشت
کود کاں مجھ کو خدا حافظ پکارے شہر سے
پاؤں میں مجنوں کے تو طاقت نہیں اے کودکو
موسم گل کی ہوا تم کو ابھارے شہر سے
اک نظر للہ ہم کو صورت زیبا دکھاؤ
تشنۂ دیدار جاتے ہیں تمہارے شہر سے
دشت گردی کی نہیں دیوانہ کو کچھ احتیاج
جامہ سے باہر جو ہے باہر ہے سارے شہر سے
اونٹ سی لگتی ہے دل جنگل سے ہوتا ہے اچاٹ
سنگ طفلاں کرتے ہیں مجھ کو اشارے شہر سے
لاش وحشت سے نہیں پہونچا میں صحرا تک ہنوز
جانے والے گور کے پہنچے کنارے شہر سے
موسم گل آئی نیت سیر دیوانوں کی ہو
میوۂ صحرائی پر ہیں منہ پسارے شہر سے
اب تو آزردہ ہے تو لیکن ملے گا ہاتھ پھر
جس گھڑی آتشؔ نکل جاوے گا پیارے شہر سے
غزل
اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے
حیدر علی آتش