EN हिंदी
اے جلیسؔ اب اک تمہیں میں آدمیت ہو تو ہو | شیح شیری
ai jalis ab ek tumhin mein aadamiyat ho to ho

غزل

اے جلیسؔ اب اک تمہیں میں آدمیت ہو تو ہو

برہما نند جلیس

;

اے جلیسؔ اب اک تمہیں میں آدمیت ہو تو ہو
ابن آدم ہو یہی جنس وراثت ہو تو ہو

رہ گئی تنہا یہ اشک افشاں ہمارے حال پر
غم گساری اپنی بھی اک شمع تربت ہو تو ہو

آتش غم نے جلا کر خاک کر ڈالا اسے
دل کہاں سینے میں اب اک داغ حسرت ہو تو ہو

کاروان زندگی کا لگ رہا ہے چل چلاؤ
ہر نفس ہم کو صدائے کوس رحلت ہو تو ہو

درد مندوں کا یہاں کوئی نہیں پرسان حال
اے اجل ان بیکسوں پر تیری رحمت ہو تو ہو

گردش دوراں مخالف ہے نہ ہے دشمن فلک
برسر پیکار مجھ سے میری قسمت ہو تو ہو

آدمی وہ ہے جسے پاس محبت ہو جلیسؔ
اور یہ شے آدمی میں آدمیت ہو تو ہو