اے ہواؤ! مجھے دامن میں چھپا لے جاؤ
زرد پتہ ہوں میں آہستہ اٹھا لے جاؤ
سر چھپانے مری کٹیا میں چلے آنا تم
اگر اس اونچی حویلی سے نکالے جاؤ
پھول مرجھاتے ہیں الفاظ نہیں مرجھاتے
دور جانا ہے بزرگوں کی دعا لے جاؤ
زندگی شاخ گل تر نہ سہی بوجھ سہی
گرتی دیوار سہی پھر بھی سنبھالے جاؤ
تند موجوں کی طرح آج پرانی یادو!
کشتئ دل کو کہیں دور بہا لے جاؤ
درد بن جائے گا خود آپ ہی درماں شیداؔ
تلخی زیست کو اشعار میں ڈھالے جاؤ
غزل
اے ہواؤ! مجھے دامن میں چھپا لے جاؤ
شیدا رومانی