اے ہم سفرو کیوں نہ نیا شہر بسا لیں
اپنے ہی اصول اپنی ہی اقدار بنا لیں
جن لوگوں نے اب تک مرے ہونٹوں کو سیا ہے
سوزن سے مری سوچ کا کانٹا بھی نکالیں
برفوں پہ الاؤ نہیں لگتے ہیں تو یارو
بجھتی ہوئی قندیل سے قندیل جلا لیں
کہنے کو تو بازار کی ہم جنس گراں ہیں
لیکن ہمیں کوڑی پہ خریدار اٹھا لیں
بوجھ اپنا بھی ہم سے تو اٹھایا نہیں جاتا
اور آپ مصر آپ کا بھی بوجھ اٹھا لیں
غزل
اے ہم سفرو کیوں نہ نیا شہر بسا لیں
فخر زمان