EN हिंदी
اے ہم سفرو کیوں نہ نیا شہر بسا لیں | شیح شیری
ai ham-safaro kyun na naya shahr basa len

غزل

اے ہم سفرو کیوں نہ نیا شہر بسا لیں

فخر زمان

;

اے ہم سفرو کیوں نہ نیا شہر بسا لیں
اپنے ہی اصول اپنی ہی اقدار بنا لیں

جن لوگوں نے اب تک مرے ہونٹوں کو سیا ہے
سوزن سے مری سوچ کا کانٹا بھی نکالیں

برفوں پہ الاؤ نہیں لگتے ہیں تو یارو
بجھتی ہوئی قندیل سے قندیل جلا لیں

کہنے کو تو بازار کی ہم جنس گراں ہیں
لیکن ہمیں کوڑی پہ خریدار اٹھا لیں

بوجھ اپنا بھی ہم سے تو اٹھایا نہیں جاتا
اور آپ مصر آپ کا بھی بوجھ اٹھا لیں