EN हिंदी
اے ہم سفر یہ راہ بری کا گمان چھوڑ | شیح شیری
ai ham-safar ye rah-bari ka guman chhoD

غزل

اے ہم سفر یہ راہ بری کا گمان چھوڑ

ظفر صہبائی

;

اے ہم سفر یہ راہ بری کا گمان چھوڑ
کس نے کہا ہے تجھ سے قدم کے نشان چھوڑ

پھر دیکھ زندگی کے مزے تجربوں کے رنگ
باہر قدم نکال ذرا سائبان چھوڑ

اب دوستی نہیں نہ سہی دشمنی سہی
کوئی تو رابطے کی کڑی درمیان چھوڑ

اس کی وفائیں صرف ہواؤں کے ساتھ ہیں
یہ اعتماد دوستیٔ بادبان چھوڑ

تلوار کی زبان سمجھنے لگے ہیں لوگ
اب یہ مہاتماؤں کا طرز بیان چھوڑ

جو تیرے سر پرست تھے کب کے چلے گئے
فرقہ پرستی تو بھی یہ ہندوستان چھوڑ

باقی جو بچ رہے ہیں وہ سرکس کے شیر ہیں
مردہ ہوا یہ دشت شکاری مچان چھوڑ