اے غیرت غم آنکھ مری نم تو نہیں ہے
کوئی دل خوں گشتہ کا محرم تو نہیں ہے
رستے ہوئے زخموں کا ہو کچھ اور مداوا
یہ حرف تسلی کوئی مرہم تو نہیں ہے
خاموش ہیں کیوں نالہ کشان شب ہجراں
یہ تیرہ شبی آج بھی کچھ کم تو نہیں ہے
جلتا تو ہے دل آج بھی اے تیرگیٔ غم
اک شمع کی لو آج بھی مدھم تو نہیں ہے
اس بزم میں سب کچھ ہے مگر اے دل پر شوق
تیری سی طلب تیرا سا عالم تو نہیں ہے
کچھ وہ بھی ہیں چپ چاپ سے کچھ میں بھی ہوں خاموش
در پردہ کوئی رنجش باہم تو نہیں ہے
غزل
اے غیرت غم آنکھ مری نم تو نہیں ہے
معین احسن جذبی