EN हिंदी
اے غیرت غم آنکھ مری نم تو نہیں ہے | شیح شیری
ai ghairat-e-gham aankh meri nam to nahin hai

غزل

اے غیرت غم آنکھ مری نم تو نہیں ہے

معین احسن جذبی

;

اے غیرت غم آنکھ مری نم تو نہیں ہے
کوئی دل خوں گشتہ کا محرم تو نہیں ہے

رستے ہوئے زخموں کا ہو کچھ اور مداوا
یہ حرف تسلی کوئی مرہم تو نہیں ہے

خاموش ہیں کیوں نالہ کشان شب ہجراں
یہ تیرہ شبی آج بھی کچھ کم تو نہیں ہے

جلتا تو ہے دل آج بھی اے تیرگیٔ غم
اک شمع کی لو آج بھی مدھم تو نہیں ہے

اس بزم میں سب کچھ ہے مگر اے دل پر شوق
تیری سی طلب تیرا سا عالم تو نہیں ہے

کچھ وہ بھی ہیں چپ چاپ سے کچھ میں بھی ہوں خاموش
در پردہ کوئی رنجش باہم تو نہیں ہے