EN हिंदी
اے دوست مجھے سوز نہاں مار نہ ڈالے | شیح شیری
ai dost mujhe soz-e-nihan mar na Dale

غزل

اے دوست مجھے سوز نہاں مار نہ ڈالے

مظفر احمد مظفر

;

اے دوست مجھے سوز نہاں مار نہ ڈالے
یہ نالۂ شب آہ و فغاں مار نہ ڈالے

اک عمر سے پیوست رگ جاں ہے مگر اب
ڈرتا ہوں کہ یہ تیر تپاں مار نہ ڈالے

رائج ہے زباں بندی کا دستور چمن میں
بلبل کو کہیں ضبط فغاں مار نہ ڈالے

خورشید قیامت سے سوا سوز دروں ہے
اے شیخ تجھے عشق بتاں مار نہ ڈالے

تو خواب ہے احساس ہے نغمہ ہے کہ گل ہے
یہ کشمکش وہم و گماں مار نہ ڈالے

بت خانے میں جاتا ہے بڑے شوق سے لیکن
زاہد کو کہیں حسن بتاں مار نہ ڈالے

بیتابیٔ دل کی یہ دوا خوب ہے لیکن
پہلو میں یہ شربت کی دکاں مار نہ ڈالے

حد سے نہ گزر جائے تری طرز تغافل
فرقت تری اے جان جہاں مار نہ ڈالے

بیٹھا ہوں ترے سایۂ گیسو میں مگر اب
ڈرتا ہوں کہ یہ راحت جاں مار نہ ڈالے

اب دولت دل ہار کے روتا ہے مظفرؔ
مفلس کو یہ احساس زیاں مار نہ ڈالے