EN हिंदी
اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں | شیح شیری
ai dost miT gaya hun fana ho gaya hun main

غزل

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں

حفیظ جالندھری

;

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دور دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں

قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

ہمت بلند تھی مگر افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محو دعا ہو گیا ہوں میں

یہ زندگی فریب مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیر دام بلا ہو گیا ہوں میں

ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں