اے دل یہ ہے خلاف رسم وفا پرستی
توبہ بتوں کے آگے ذکر خدا پرستی
اک خنجر قضا ہے اک نشتر جفا ہے
وہ چشم شوخ جو ہے محو حیا پرستی
دکھلاؤں گا تماشا اس آئنے میں تم کو
صبح ازل سے دل ہے محو صفا پرستی
ظالم کی ہے یہ کوشش اس کو کہیں مٹا دوں
مظلوم دل کو میرے فکر بقا پرستی
کیوں ساز و برگ ہستی کرتا ہے تو مہیا
دنیا کو ہے ازل سے ذوق فنا پرستی
لائی نہ میکدے سے واپس عزیزؔ تجھ کو
یہ حکمت و تصوف یہ اولیا پرستی
غزل
اے دل یہ ہے خلاف رسم وفا پرستی
عزیز لکھنوی