اے دل تری آہوں میں اتنا تو اثر آئے
جب یاد کروں ان کی تصویر نظر آئے
ہر چند حسیں تھے تم ہر چند جواں تھے تم
پر عشق کے سائے میں کچھ اور نکھر آئے
میں کھیل سمجھتا تھا مجھ کو یہ خبر کیا تھی
کیا جانئے کب میرے دل میں وہ اتر آئے
اس حسن کے جلووں نے کچھ سحر کیا ایسا
نظروں میں نہ میری پھر کچھ شمس و قمر آئے
پھر کس سے ملیں نظریں پھر کس نے مجھے چھیڑا
پھر دور محبت کے سب نقش ابھر آئے
طوفان حوادث نے کب کب نہ ہمیں گھیرا
دریائے محبت میں کیا کیا نہ بھنور آئے
ہلکی سی سیاہی ہے تحریر محبت کی
آنسو کی جگہ بہہ کر پھر خون جگر آئے
منزل کی تمنا نے رکنے نہ دیا اس کو
رستے میں مسافر کے گو لاکھ شجر آئے
پرخار تھیں ویراں تھیں راہیں تو محبت کی
جانباز ترے لیکن بے خوف و خطر آئے
گو لاکھ کہا دل نے رک جاؤ ٹھہر جاؤ
ہم پھر بھی نہ جانے کیوں چپ چاپ گزر آئے
کیا اور نہ تھا کوئی جو ان کو سمجھ پاتا
بازار جہالت میں کیوں اہل ہنر آئے
اس دور ترقی میں بس وہ ہے ذکیؔ اچھا
جو سیدھے یا الٹے ہی ہر کام کو کر آئے
غزل
اے دل تری آہوں میں اتنا تو اثر آئے
ذکی کاکوروی