اے دل ترے طفیل جو مجھ پر ستم ہوئے
پوچھے جو مجھ سے کوئی تو کہہ دوں کہ کم ہوئے
میرے چراغ ذہن کو وہ گل نہ کر سکے
حالانکہ سب اندھیرے مرے دل میں ضم ہوئے
حرف غضب سے بھی ہمیں محروم کر دیا
یوں بے نیاز ہم سے ہمارے صنم ہوئے
ان کی زمین دل کا تو قصہ ہی اور ہے
ورنہ ان آنسوؤں سے تو صحرا بھی نم ہوئے
احباب نے تو راستے ڈھونڈے تھے مختلف
لیکن سب آ کے میری ہی راہوں میں ضم ہوئے
ربط دلی سے خلق کو اب واسطہ کہاں
اب تو ہما شما بھی اسیر منم ہوئے
ارشدؔ فصیل ذہن میں بڑھنے لگا جو حبس
ہم شہر دل میں جا کے ذرا تازہ دم ہوئے
غزل
اے دل ترے طفیل جو مجھ پر ستم ہوئے
ارشد کمال