اے دل شریک طائفۂ وجد و حال ہو
پیارے یہ عیب ہے تو بہ حد کمال ہو
شبلیؔ و بایزیدؔ و گرونانکؔ و کبیرؔ
ہنگامۂ جلال میں رقص جمال ہو
سب کی زباں پہ مست قلندر ہو دم بدم
پھر اس کے بعد رات میں ڈٹ کر دھمال ہو
پھر ہم سفر کریں طرف سمت لا جہت
نے شرق و غرب ہو نہ جنوب و شمال ہو
آساں رجوع شمس ہے لیکن ترے ملنگ
پہنچیں وہاں جہاں سے پلٹنا محال ہو
اک کائنات خواب بصد ممکنات خواب
نیرنگئ خیال بہ حسن خیال ہو
سرشار و سربلند و سیہ مست و سرفروش
ماحول اپنے حال میں گم ہو وہ حال ہو
گیتا کا تذکرہ ہو تو گوتم سے گفتگو
اور وید کی زباں میں جواب و سوال ہو
اے خضر وقت مجلس اقطاب وقت میں
ذکر معاملہ ہو نہ فکر مآل ہو
ہم یوں رواں ہوں راہ ابد میں کہ سد راہ
مستقبل وجود نہ ماضی و حال ہو
کیا کیا تصورات ہیں کیا کیا تخیلات
ایسا نہ ہو کہ یہ بھی طلسم خیال ہو
سب کچھ ہے گر طلسم خیال و فسوں تو پھر
اے دل شریک طائفۂ وجد و حال ہو
غزل
اے دل شریک طائفۂ وجد و حال ہو
رئیس امروہوی