اے دل خود نا شناس ایسا بھی کیا
آئینہ اور اس قدر اندھا بھی کیا
اس کو دیکھا بھی مگر دیکھا بھی کیا
عرصۂ خواہش میں اک لمحہ بھی کیا
درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا
زندگی خود لاکھ زہروں کا تھی زہر
زہر غم تجھ سے مرا ہوتا بھی کیا
پوچھتا ہے راہرو سے یہ سراب
تشنگی کا نام ہے دریا بھی کیا
کھینچتی ہے عقل جب کوئی حصار
دھوپ کہتی ہے کہ یہ سایہ بھی کیا
اف یہ لو دیتی ہوئی تنہائیاں
شہر میں آباد ہے صحرا بھی کیا
خود اسے درکار تھی میری نظر
خود نما جلوہ مجھے دیتا بھی کیا
رقص کرنا ہر نئے جھونکے کے ساتھ
برگ آوارہ ہے یہ دنیا بھی کیا
خندہ زن غم پر خوشی پر اشک بار
ان دنوں یارو ہے رنگ اپنا بھی کیا
بے تب و تاب شعاع آگہی
عشق کہیے جس کو وہ شعلہ بھی کیا
گاہے گاہے پیار کی بھی اک نظر
ہم سے روٹھے ہی رہو ایسا بھی کیا
اے مری تخلیق فن تیرے بغیر
میں کہ سب کچھ تھا مگر میں تھا بھی کیا
نغمۂ جاں کو گراں گوشوں کے پاس
نارسائی کے سوا ملتا بھی کیا
غزل
اے دل خود نا شناس ایسا بھی کیا
امید فاضلی