اے دل اچھا نہیں مصروف فغاں ہو جانا
غم کی توہین ہے اشکوں کا رواں ہو جانا
دل کی آواز بھی مجروح جہاں ہوتی ہے
ایسے حالات میں خاموش وہاں ہو جانا
میرے آنسو جو گریں ٹانک لو تم جوڑے میں
دیکھ لے کوئی تو پھولوں کا گماں ہو جانا
اہل ساحل کو بھی اندازۂ طوفاں ہو جائے
قطرۂ اشک ذرا سیل رواں ہو جانا
رخصت موسم گل کے بھی اٹھاؤ صدمے
اتنا آساں نہیں احساس خزاں ہو جانا
قید موسم نہیں نغمات عنا دل کے لیے
کوئی موسم ہو گل تر کی زباں ہو جانا
میرے جینے کا سہارا تھیں جو نظریں کل تک
کیا ستم ہے انہیں نظروں کا گراں ہو جانا
شوق افزا ہے یہ انداز حجاب خوباں
دل میں رہتے ہوئے آنکھوں سے نہاں ہو جانا
وہ گلستاں میں جو آ جائیں تو ممکن ہے خیالؔ
مسکراتی ہوئی کلیوں کا جواں ہو جانا
غزل
اے دل اچھا نہیں مصروف فغاں ہو جانا
فیض الحسن