EN हिंदी
اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے | شیح شیری
ai dasht-e-arzu mujhe manzil ki aas de

غزل

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے

معراج فیض آبادی

;

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے

پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے
اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے

فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے

آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر
بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے

لفظوں میں جذب ہو گیا سب زندگی کا زہر
لہجہ بچا ہے اس کو غزل کی مٹھاس دے