اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے
پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے
اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے
فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے
آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر
بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے
لفظوں میں جذب ہو گیا سب زندگی کا زہر
لہجہ بچا ہے اس کو غزل کی مٹھاس دے

غزل
اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے
معراج فیض آبادی