اے بت ناآشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم
تو اگر اس بزم میں مے ہے تو پیمانے ہیں ہم
بوسہ لیویں یا گلے لگ جائیں آزردہ نہ ہو
چاہنے والے ہیں اور دیوانے مستانے ہیں ہم
کب الم اور حسرتیں اپنی کہیں اے دوستاں
رات کو بلبل ہیں ہم اور دن کو پروانے ہیں ہم
گھورنے سے کیا تمہاری آنکھوں کے ہم ڈر گئے
وے اگر ہیں مست اے پیارے تو دیوانے ہیں ہم
اے رضاؔ ہم مل گئے اس سے گلے پی کر شراب
گو ہیں دیوانے پر اپنے کام کے سیانے ہیں ہم
غزل
اے بت ناآشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم
رضا عظیم آبادی