اے اسیران طلسم شب غم سو جاؤ
شمع امید کی لو ہو گئی کم سو جاؤ
چاند تاروں کی چمک ہو گئی کم سو جاؤ
سرحد صبح میں ہیں شب کے قدم سو جاؤ
اب نہ جاگو کسی گزری ہوئی شب کی یادو
تم کو ہم جاگنے والوں کی قسم سو جاؤ
بجھ گئی شمع بھی پروانے بھی دم توڑ چکے
ان کے آنے کی اب امید ہے کم سو جاؤ
ڈبڈبائی ہوئی آنکھو تمہیں اشکوں کی قسم
کھل نہ جائے کہیں الفت کا بھرم سو جاؤ
غم کے ماروں کو سکوں ملتا ہے میخانے میں
جاؤ چھیڑو نہ ہمیں شیخ حرم سو جاؤ
دل دھڑکنے کی بھی آواز ہے ساکت ماہرؔ
اب نہیں کوئی شریک شب غم سو جاؤ
غزل
اے اسیران طلسم شب غم سو جاؤ
ماہر الحمیدی