EN हिंदी
اے آبلہ پا اور بھی رفتار ذرا تیز | شیح شیری
ai aabla-pa aur bhi raftar zara tez

غزل

اے آبلہ پا اور بھی رفتار ذرا تیز

نامی انصاری

;

اے آبلہ پا اور بھی رفتار ذرا تیز
اس دشت پر اسرار میں چلتی ہے ہوا تیز

آثار تو کچھ ایسے خطرناک نہیں تھے
کیا جانئے کس طرح یہ طوفان ہوا تیز

کچھ ابر و ہوا برق و شرر سے نہیں مطلب
اس دور پر آشوب میں ہر شے ہے سوا تیز

کیا موج سخن کیا نفس صاعقہ پرور
بس یہ ہے کہ ہو جاتی ہے آواز انا تیز

اٹھتے ہیں سر راہ جہاں زرد بگولے
ہوتا ہے وہیں رقص جنوں اور سوا تیز

شاید کہ رگ جاں میں لہو زندہ ہے اب تک
اکثر در زنداں سے ابھرتی ہے صدا تیز

تقدیر محبت بھی بدل جائے گی نامیؔ
ان ہاتھوں پہ ہو جائے ذرا رنگ حنا تیز