احمق نہیں کہ سمجھیں برا وقت ٹل گیا
کچھ روز کے لیے جو یہ موسم بدل گیا
یک لخت ہنستے لوگ یہ برہم کیوں ہو گئے
شاید مری زبان سے کچھ سچ نکل گیا
راضی تھے ہم تو جان بھی دینے کے واسطے
کم ظرف لے کے دل ہی ہمارا مچل گیا
کیا بولنے کے حک کا اٹھائے گا فائدہ
جو بھوک میں زبان ہی اپنی نگل گیا
مانگے گا جائیداد میں حصہ یہ ایک روز
فی الحال چاہے لے کے کھلونے بہل گیا
احسان مند چاہے ہمارا نہ ہو کوئی
پر ہم گرے تو سارا زمانہ سنبھل گیا
کانٹوں پہ احتیاط سے چلتا تھا آدمی
ان چمچماتے فرشوں پہ جانبؔ پھسل گیا
غزل
احمق نہیں کہ سمجھیں برا وقت ٹل گیا
مہیش جانب