اہل محبت کی مجبوری بڑھتی جاتی ہے
مٹی سے گلاب کی دوری بڑھتی جاتی ہے
محرابوں سے محل سرا تک ڈھیروں ڈھیر چراغ
جلتے جاتے ہیں بے نوری بڑھتی جاتی ہے
کاروبار میں اب کے خسارہ اور طرح کا ہے
کام نہیں بڑھتا مزدوری بڑھتی جاتی ہے
جیسے جیسے جسم تشفی پاتا جاتا ہے
ویسے ویسے قلب سے دوری بڑھتی جاتی ہے
گریۂ نیم شبی کی نعمت جب سے بحال ہوئی
ہر لحظہ امید حضوری بڑھتی جاتی ہے
غزل
اہل محبت کی مجبوری بڑھتی جاتی ہے
افتخار عارف