اہل عشق کی ہستی کیا عجیب ہستی ہے
مرگ ناگہانی کو زندگی ترستی ہے
نام ہے سکوں جس کا جنس وہ نہیں ملتی
اشک جس کا حاصل ہیں وہ خوشی تو سستی ہے
جس جگہ محبت سے حسن و عشق ملتے ہیں
کون سی وہ دنیا ہے کون سی وہ بستی ہے
سو طرح رلاتی ہے بھول کر اگر ہنسئے
روئیے تو یہ دنیا کھلکھلا کے ہنستی ہے
کیا ضرور پی کر ہی ہم سرور میں آئیں
وہ نظر سلامت ہے بے پیے ہی مستی ہے
جلوہ ہائے رنگ و بو دل میں کیا جگہ پائیں
آنکھ میں جو بستا ہے دل تو اس کی بستی ہے
دوسرے کے ساغر پر جو نظر نہیں رکھتے
ان کی مے پرستی میں شان حق پرستی ہے
کس کی مے فروش آنکھیں بس گئیں تصور میں
بے نیاز جام و مے اپنی مے پرستی ہے
دل انہیں ترستا ہے جب وہ دور ہوتے ہیں
جب قریب آتے ہیں آنکھ انہیں ترستی ہے
ہم نے عشق و الفت میں وہ فریب کھائے ہیں
جن کی دل فریبی کو زندگی ترستی ہے
صدقے آسماں جاہی تیرے خاکساروں پر
رشک صد بلندی ہے عشق میں جو پستی ہے
بے ثبات پاتا ہوں اکثر ان امیدوں کو
ہائے جن امیدوں پر انحصار ہستی ہے
جب ذرا خیال آیا ہوش ہو گئے رخصت
اے رشیؔ ان آنکھوں میں کس بلا کی مستی ہے

غزل
اہل عشق کی ہستی کیا عجیب ہستی ہے
رشی پٹیالوی